سرگودھا : چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ پاکستان میں عوامی مسائل کے حل اور گورننس کی بہتری کے لیے چھوٹے صوبے بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان کے مطابق چار بڑے صوبوں کا موجودہ ڈھانچہ ناکام ہو چکا ہے اور اب ملک کو انتظامی طور پر نئی بنیادوں پر منظم کرنا ہوگا۔
وہ لاہور میں ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان (ایپ سپ) کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار "2030 کا پاکستان: چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں" سے خطاب کر رہے تھے۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر انتظامی ڈھانچہ وہی پرانا ہے۔ان کے مطابق، "پنجاب اکیلا ہی 13 کروڑ آبادی رکھتا ہے، اگر یہ ملک ہوتا تو دنیا کا چھٹا بڑا ملک شمار ہوتا۔ اس کے باوجود ہم پورے ملک کے لیے ایک وزیراعلیٰ پر انحصار کر رہے ہیں۔"
انہوں نے تجویز دی کہ ملک کے ہر ڈویژن کو ایک صوبہ بنایا جائے، جس سے تقریباً 33 صوبے بنیں گے۔ ان کے بقول، "اس سے اخراجات بڑھنے کے بجائے کم ہوں گے کیونکہ فیصلے مقامی سطح پر ہوں گے اور نظام زیادہ مؤثر ہو جائے گا۔"
انہوں نے کہا کہ پچھلے 80 سال میں صرف کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد اور پشاور جیسے چند شہر ترقی کر سکے ہیں، جبکہ باقی ملک پسماندگی کا شکار ہے۔ ان کے مطابق بلوچستان میں صرف کوئٹہ تھوڑا ترقی یافتہ ہے، باقی علاقے بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ انہوں نے کہا"چھوٹے صوبے بننے سے یہ محرومیاں ختم ہوں گی اور ترقی ملک کے کونے کونے تک پہنچے گی،" ۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ بھارت آزادی کے وقت صرف 9 ریاستوں پر مشتمل تھا، لیکن آج وہاں 37 انتظامی یونٹس ہیں۔
انہوں نے کہا، "بھارت میں ہر ریاست اپنی ترقی اور جی ڈی پی کا مقابلہ کرتی ہے، اسی لیے وہاں مسابقت اور بہتری پیدا ہوئی۔ جبکہ ہم 80 سال سے چار صوبوں میں بند ہیں اور نتائج سب کے سامنے ہیں۔"
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی ناکامی انسانی ترقی میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 44 فیصد بچے اسٹنٹنگ (کمزور نشوونما) کا شکار ہیں، ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، اور حکومت ایک بچے پر صرف چار ہزار چار سو روپے ماہانہ خرچ کر رہی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر تعلیم پر فوری توجہ نہ دی گئی تو آنے والے 15 سالوں میں ملک کے پاس تعلیم یافتہ افرادی قوت نہیں بچے گی۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ ترقی صرف میرٹ اور انصاف سے ممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مڈل کلاس ہی اصل تبدیلی لا سکتی ہے کیونکہ وہ محنت اور قابلیت پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا، "دنیا بھر میں قیادت مڈل کلاس سے ابھرتی ہے، مگر ہمارے ہاں سسٹم نے اسے آگے آنے سے روک رکھا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ حقیقی احتساب اداروں سے نہیں بلکہ عوامی ووٹ سے ممکن ہے۔ "اگر عوام صحیح لیڈروں کو ووٹ دیں تو سسٹم خود بخود درست ہو جائے گا۔ آج سوشل میڈیا نے ہر نوجوان کو آواز دی ہے، اسی طاقت سے چھوٹے صوبوں کی حمایت کا پیغام عام کریں،" انہوں نے نوجوانوں کو مشورہ دیا۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر سرگودھا کو صوبہ بنا دیا جائے تو وہاں کے موجودہ کمشنر، چیف سیکرٹری کے فرائض انجام دے سکتے ہیں اور آر پی او آئی جی بن جائے گا۔
"اس طرح نیا انتظامی ڈھانچہ نہیں بنے گا بلکہ موجودہ وسائل ہی بہتر طریقے سے استعمال ہوں گے،" انہوں نے وضاحت کی۔
میاں عامر محمود نے ترکی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی سیاسی اتار چڑھاؤ رہا، مگر جب رجب طیب اردوان جیسے میرٹ پر آنے والے لیڈر سامنے آئے تو ملک نے ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ "پاکستان میں جب تک عوام میرٹ پر قیادت کا انتخاب نہیں کریں گے، حالات بہتر نہیں ہوں گے۔"
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان نے کہا کہ میاں عامر محمود نے تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہمیں نوجوانوں کو صحیح سمت دکھانی ہوگی کیونکہ ملک کا مستقبل انہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر نظام درست نہ ہوا تو اگلے 80 سال بھی ایسے ہی ضائع ہو جائیں گے۔"