لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیر صدارت سپیشل ایجوکیشن سے متعلق ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں خصوصی بچوں کے لیے انقلابی فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں سپیشل ایجوکیشن مراکز کے لیے 48 نئی بسوں کی فراہمی کی منظوری دی گئی، جبکہ خصوصی بچوں کو "ہمّت کارڈ" پروگرام میں شامل کرنے کا بھی اصولی فیصلہ کیا گیا۔
وزیراعلیٰ نے اجلاس کے دوران کہا کہ خصوصی بچوں کی تعلیم، تھراپی اور بحالی کے لیے عالمی معیار کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے دنیا بھر سے آٹزم کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ آٹزم سکول میں بچوں کو مکمل مفت تعلیم اور تھراپی فراہم کی جائے گی۔
اجلاس کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار اتنے قلیل وقت میں خصوصی بچوں کے 5 ہزار سے زائد داخلے کیے گئے ہیں، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ وزیراعلیٰ نے معاون خصوصی برائے سپیشل ایجوکیشن ثانیہ عاشق اور ان کی ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔
اجلاس میں "مریم نواز آٹزم سکول اینڈ ریسرچ سینٹر" کے لیے خصوصی ہائبرڈ ماڈل کی منظوری دی گئی، جس میں اردو و انگریزی زبان میں تصویری اور تحریری تھراپی فراہم کی جائے گی۔
بچوں کو 3 سے 16 سال کی عمر میں داخلہ دیا جائے گا، جبکہ 22 سال تک بچے تعلیم و تھراپی حاصل کر سکیں گے۔
اسکول میں اوپن جم، واکنگ ٹریک، سنسری گارڈن، اور ساؤنڈ تھراپی سینٹرز بھی قائم کیے جائیں گے۔
اسکول کے لیے ایک جامع، فنکشنل گرین نصاب تعلیم تیار کیا گیا ہے، جس میں کمیونیکیشن، لائف اسکلز، اسلامی و اخلاقی تعلیم، ٹیکنالوجی، جسمانی تربیت اور سماجیات شامل ہیں۔
والدین کے لیے بھی کوچنگ ماڈیولز تیار کیے گئے ہیں تاکہ گھر اور اسکول کے درمیان ہم آہنگی قائم کی جا سکے۔
بچوں کی حفاظت کے لیے اسکول میں CCTV کیمرے اور چلڈرن ویلفیئر آفیسرز تعینات کیے جائیں گے۔اجلاس میں ریسرچ اینڈ ٹیچر ٹریننگ ڈویژن کے قیام کی بھی منظوری دی گئی، جہاں ماسٹر ٹرینرز اساتذہ کو جدید تربیت دیں گے۔
اس ڈویژن میں ایک سالہ ڈپلومہ اور سرٹیفکیٹ پروگرامز کا آغاز بھی کیا جائے گا تاکہ شعبے میں تحقیقی کام اور تدریسی معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز نے 13 رکنی بورڈ آف گورنرز کی تشکیل اور آٹزم ریسورس سینٹر کے تین سالہ سٹرٹیجک پلان کی منظوری بھی دی، جس سے اس منصوبے کو پائیدار اور قابلِ عمل بنیادیں ملیں گی۔
یہ اقدامات پنجاب میں خصوصی تعلیم کے شعبے میں ایک نئے باب کا آغاز ہیں، جو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک ماڈل کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔