لاہور : 30 جولائی کو دنیا بھر میں انسانی سمگلنگ کے خلاف عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کا مقصد انسانی سمگلنگ کے بارے میں آگاہی پھیلانا، اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کو قانون کے شکنجے میں لانا اور ان لاکھوں افراد کو تحفظ فراہم کرنا ہے جو لالچ یا مجبوری کی وجہ سے اس جرم کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں انسانی سمگلنگ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، خاص طور پر نوجوانوں کو غیر قانونی طریقوں سے یورپ جانے کی کوششوں کے دوران سمگلروں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سمگلر نوجوانوں کو بہتر مستقبل اور روزگار کے جھانسے دے کر انہیں خطرناک راستوں پر بھیجتے ہیں، جن کا نتیجہ اکثر موت کی صورت میں نکلتا ہے۔ حالیہ برسوں میں سیکڑوں پاکستانی نوجوان غیر قانونی راستوں سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہوئے سمندر میں ڈوب کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دن کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف بیانات تک محدود نہ رہے بلکہ 2018ء میں منظور کیے گئے "سمگلنگ آف مائیگرنٹس ایکٹ" پر مکمل عملدرآمد کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، غیر قانونی ہجرت کے بارے میں عوامی آگاہی بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔
حکومت کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی اپنے مستقبل کے بارے میں سمجھداری سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر قانونی راستوں کی تلاش میں نہ صرف انسانی سمگلرز کا شکار ہو سکتے ہیں، بلکہ ان کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس کے بجائے، انہیں قانونی اور محفوظ طریقوں سے بیرونِ ملک جانے کے لیے مشورہ دیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، جب تک ہر فرد اپنی ذمہ داری نہیں نبھائے گا، یہ مکری صنعت انسانی جانوں کا بدلہ لیتی رہے گی۔ اس دن کو منانے کا مقصد صرف آگاہی پیدا کرنا ہی نہیں، بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔