مریدکے: مریدکے میں مذہبی جماعت کے احتجاج کے دوران پرتشدد واقعات میں ایک پولیس افسر شہید جبکہ 48 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی رات پیش آیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق احتجاج کے دوران مظاہرین نے مختلف تشدد آمیز ہتھکنڈوں کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں صورتحال بگڑ گئی اور پولیس کو عوامی تحفظ کے لیے کارروائی کرنی پڑی۔
ابتدائی طور پر انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور احتجاج کو کم متاثرہ مقام پر منتقل کرنے کی کوشش کی، تاہم احتجاج کی قیادت نے ہجوم کو اکسانا جاری رکھا۔ مظاہرین نے پتھراؤ، کیلوں والے ڈنڈوں، پٹرول بموں اور دیگر تشدد آمیز ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق مظاہرین نے پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر انہی ہتھیاروں سے فائرنگ بھی کی۔
تشویشناک صورتحال کے پیش نظر پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے ذریعے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی، لیکن مظاہرین مزید مشتعل ہوگئے اور منظم حملے کیے۔ اس دوران 40 سے زائد سرکاری و نجی گاڑیاں جلائی گئیں، جبکہ کئی دکانیں بھی نذرِ آتش کر دی گئیں۔
پولیس کے مطابق فائرنگ اور دیگر تشدد کے واقعات میں 17 پولیس اہلکار گن شاٹ کے زخموں کا شکار ہوئے۔ زخمی اہلکاروں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا، جہاں ان کا علاج جاری ہے۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق تین ٹی ایل پی کارکن اور ایک بے گناہ راہ گیر بھی جاں بحق ہوئے، جبکہ 30 کے قریب شہری زخمی ہوئے۔
مظاہرین نے یونیورسٹی کی بس سمیت کئی گاڑیاں اغوا کر کے احتجاج میں استعمال کیں، اور بعض گاڑیوں کو عوام کو کچلنے کے لیے بھی چلایا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق شر پسند عناصر نے پولیس پر پتھر، پٹرول بم اور کیلوں والے ڈنڈوں سے حملے کیے، اور متعدد مقامات پر اندھا دھند فائرنگ بھی کی گئی۔
پولیس نے متعدد ملزمان کو گرفتار کیا ہے، تاہم ٹی ایل پی رہنما سعد رضوی سمیت دیگر رہنما موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ پولیس نے ان ملزمان کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
حکام نے کہا ہے کہ اس کارروائی کو منظم تشدد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس میں احتجاج کی قیادت نے ہجوم کو اکسانا اور پھر فرار ہو کر شہریوں اور ریاست کو خطرے میں ڈالا۔ پولیس نے واضح کیا کہ ہتھیار چھیننا، پٹرول بم پھینکنا اور گاڑیاں جلانا کسی صورت پرامن احتجاج نہیں کہلاتا، اور ایسے عناصر کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔